تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
حوزہ نیوز ایجنسی | امام جعفر صادق علیہ السلام کی قمری کیلنڈر کے مطابق بتاریخ 17، ربیع الاول 83 ہجری اور انگریزی کیلنڈر کے مطابق 702 عیسوی، یومٍ دو شنبہ مدینہ منورہ میں ولادت باسعادت ہوئی۔ (ارشاد مفید فارسی، صفحہ 413؛ اعلام الوریٰ، صفحہ 159؛ جامع عباسی، صفحہ 60) آپ کی ولادت کی تاریخ کو خداوندٍ عالم نے بڑی عزت و احترام بخشی کہ اس تاریخ میں تاجدار انبیاؐء، حبیبؐ کبریا و رحمت العالمینؐ کی بھی یومٍ ولادت باسعادت ہے۔ آپ کے القاب صادق، صابر، فاضل و طاہر ہیں۔ علامہ مجلسی و علماء رقمطراز ہیں کہ جنت میں جعفر نامی ایک شیرین نہر ہے اسی کی مناسبت سے آپ کا یہ لقب رکھا گیا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ آپ کا علمی سرچشمہ، فیض عام نہر جاری ہے۔ (ار حج المطالب، صفحہ 361) آپ کے حیات کے دوران علم و ادب کا سرچشمہ جاری رہا اور آپ نے آثار چھوڑے تھے، آج ان سے ایران، لبنان، یمن، شام، فلسطین، عراق اور بھی دوسرے ممالک فیضیاب ہو رہے ہیں۔
امامٍ جعفر صادق علیہ السلام کی قمری کیلنڈر کے حساب سے 1362 ویں اور انگلش کیلنڈر کے اعداد و شمار کے مطابق 1321 ویں یومٍ ولادت تذک و احتشام، شان و شوکت کے ساتھ منائی جارہی ہیں۔
اگر ہم اپنی محدود زندگی اور قیمتی وقت کا استعمال کتابوں کی ورق گردانی میں کریں تو نتیجہ یہ نکال پائیں گے کہ اصل میں یوروپ کی ترقی یافتہ دنیا کہ سائنسدانوں اور دانشوروں کی اپنے معیارات اور نقطۂ نظر کے مطابق علمی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ یہ نتائج جن پر ان یوروپی دانشوروں نے رسائی حاصل کی ہے دراصل وارث پیغمبراکرمؐ، مذہب اہلبیتؑ کے مؤسس و بانی، الٰہی سلسلۂ خلافت و امامت کے چھٹے تاجدار اور اسلامی شاہراہ ہدایت کے روشن منارے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے کرامات سے منسوب ہیں۔ آپ کی تصانیف کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔ آپؑ نے بے شمار کتابیں و رسالے اور مقالات سے دُنیا والوں کو فیضیاب فرمایا ہے۔
آپؑ نے علم دین، علم کیمیا، علم رجز، علم فال، علم فلسفہ، علم طبیعیات، علم ۂیت، علم منطق، علم طب، علم سمیات، علم تشریح الاجسام و افعال الاعضا وغیرہ پر خامہ فرسائی فرمائ ہے۔ (حوالے کے لیے شیخ کلینی، شیخ طوسی، شیخ مفید، شیخ صدوق اور علامہ مجلسی کی کتابیں دیکھیں)
امام جعفر صادق علیہ السلام جدید علمی دور کے موجد ہیں، عرفان کے بانی ہیں، شیعی ثقافت کی تشکیل کی، آپؑ کی نظر میں علم و ادب ضروری ہے اور اس کا لازمی طور پر مطالعہ کیا جائے۔
قارئین کرام کو امام جعفر صادقؑ کے اس مختصر جملے پر توجہ دینی چاہیے: "یتیم وہ نہیں جس کا باپ مرگیا ہو بلکہ وہ ہے جو علم و ادب سے بے بہرہ ہو۔" "علم ایک وراثتٍ کریمہ ہے اور آداب و اخلاق اٍس کے لباس ہائے فاخرہ ہیں اور فکر شفاف آئینہ ہے۔"
آپ نے فرمایا کہ ایک عام انسان کا ایمان بالکل سطحی اور غیر مستحکم ہے۔ لیکن وہ مومن جو علم و ادب کا حامل ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیوں اور کس پر ایمان رکھتا ہے اور اس لیے مرتے دم تک اس کا ایمان سلامت رکھتا ہے۔
اگر ہم ماضی اور حال کا مطالعہ کریں تو نصیحت ملے گی کہ کامیاب و کامران وہی ہوئے ہیں جنھوں نے علم حاصل کی اور اس پر عمل پیراں ہوئے۔ انفرادی یا قومی کامیابی کے لیے چند اسباب ہیں۔ ان میں منصوبہ و ذہن سازی، اہداف کی ترجیح، متعلقہ تعلیم اور مہارت کا حاصل کرنا، مفید عادت کو فروغ دینا، مثبت رویہ، ماضی سے عبرت لینا، نئی چیزوں کے لیے کُھلا ذہن رکھنا، خطرات سے قدم پیچھے نہ کرنا، سخت محنت، سنجیدگی، وقت کی پابندی، ہمیشہ تیار، چاک و چوبند ہونا، تلاشٍ جذبہ، عزم، درپیش حالات سے سیکھنا، اپنی اقدار کی دریافت کرنا، اپنے آپ کو دوسرے یا حریف سے موازنہ نہیں کرنا، پیش رفت کریں، کامیابی راتوں رات نہیں ملتی، کوششوں میں تسلسل رہے، مثبت فکر، اہداف بنانے میں تدبر و تفکر لازمی ہے، جو بھی کریں وہ مخصوص، قابل پیمائش و حصول اور وقت کی بنیاد مقرر رہے۔ ان شاءاللہ کامیابی ملے گی۔
آپ پیغمبرٍ اسلام اور آئمہ اطہار علیہم السلام کے ادوار کا مطالعہ کریں۔ حالات کتنے سخت اور حکمران کتنے ظالم و جابر: نوشیرواںعادل، ہرقل بادشاہ، قیصر روم، معاویہ، ابن ابی قحافہ، یزید لعنت اللہ، ، ولید، ہشام، عبدالملک، منصور دوانقی، ہارون رشید، مامون رشید، معتصم، و متعمد وغیرہ لیکن اپنی عظمت، فضیلت اور کرامات دکھا گئے۔ مقصد خلقت کا سبق سکھاگئے۔
رسولؐ اکرم اور آئمہ اطہار علیہم السلام کی تعلیمات اور حیات طیبہ کو عملی نمونہ اور سیرت پر چلتے ہوئے رہبر کبیر امام خمینی، رہبر معظم، آیتہ اللہ سید علی خامنہ ای اور آیتہ اللہ العظمٰی سید علی الحسینی سیستانی دام ظلہ الوارف نے قوم کو ظالم حکمرانوں سے نجات دلائی۔ شاہ پہلوی اور صدام ملعون کے ظلم اور بر بریت دنیا میں عیاں ہیں۔ شیطانٍ بزرگ، امریکہ، اسرائیل اور عرب ممالک نے ایران کے خلاف اتحاد بنا کر ختم کرنے کی کوششیں کی لیکن ان باطل قوتوں کو ذلیل ہونا پڑا۔ کیسی کیسی صعوبتیں برداشت کیں۔ معاشی پابندی، تجارتی پابندی یہاں تک کہ دوائیوں کی درآمدات پر پابندی۔ آج الحمدللہ، ہر میدان میں سرخرو ہوا۔ اللہ پاک نے شادمانی بخشی۔ جیسے تعلیمی، سائنسی، دفاعی، بحری، ہوائی، میزائل، ڈرون، ذراعتی، علم طب، ماڈرن سائنسیز، آئ ٹی، اور کمپیوٹر سائنس، علم کیمیا، علم طبیعیات وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ امام خامنہ ای کی رہبری میں ایران نے نور- 3 سیٹلائٹ کی کامیاب ساخت اور زمین سے 450 کلومیٹر دور مدار میں بھیج کر سائنسی دنیا کو ایک بڑا جھٹکا دیا۔ یہ ایران کی ترقی و پیش رفت کو روکنے اور پابندیاں عائد کرنے سے متعلق دشمن کی سیک اور ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اہل تشیع میں یہ ادراک و فہم ہونی چاہیے کہ امام صادقؑ کو ادب سے زیادہ دلچسپی تھی یا علم سے؟ آپ کے ذہن میں شعر کی زیادہ اہمیت تھی یا علم طب کی؟ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جنہیں علم اور ادب دونوں سے یکساں دلچسپی رہی ہو۔ کیونکہ تمام نوع بشر کی فکر استعداد کچھ اس انداز کی ہے کہ وہ ادب سے دلچسپی رکھتے ہیں یا علم سے۔ آج کے شعراء کرام کے معلومات میں اضافے کے لیے یہ بھی قابل ذکر ہے کہ عربوں میں ادب کا اطلاق شعر پر ہوتا تھا جبکہ یہ جاہلیت کا دور تھا اور زبان کا نثری ادب سے رشتہ استوار کرنے والی ہستی امام صادقؑ کی ذات گرامی ہے۔ آپ علم و ادب کو نہ صرف مذہبی ثقافت کے اعتبار سے ضروری سمجھتے تھے بلکہ ارتقاء بشر اور مستحسن صفات کی تقویت کے لیے بھی اسے ضروری سمجھتے تھے۔
عام طور پر لوگوں کو ثقافت کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے اور شروع کے پانچ اماموں کا بھی کوئی قابل ذکر کام اس شعبہ میں نہیں ہے۔ قارئین کرام غور کریں، امام صادقؑ نے مذہب شیعہ کی خدمت دو طریقوں سے کی۔ ایک تو یہ کہ آپؑ نے علوم کی تدریس کے ذریعے اہل تشیع کو دانشمند بنایا جس کے سبب ایک شیعی ثقافت وجود میں آئی۔ شیعی ثقافت کے وجود میں آنے سے اس مذہب کو بڑی اہمیت و تقویت حاصل ہوئی۔ اور شیعہ مذہب کے ہر فرد کو احساس ہے کہ ثقافت ان کی تقویت کا باعث ہے۔ (یونان کی طرح) بعض قدیم قومیں آج اس لیے وجود میں ہیں کہ ان کی اپنی ثقافت ہے ورنہ وہ رفتہ رفتہ صفحۂ ہستی سے ختم ہو جاتی، دوسری ظالم حکومتیں انھیں مٹی میں ملا دیتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ شیع کو ختم کرنے کی بہت کوشش کی گئی، ظالم و جابر بادشاہوں کی ایک طویل فہرست ہے کے اکیلے مضبوط و مستحکم ثقافت نے ہی بحفاظت ابتک سلامت رکھا۔ اور اس کا تاج امام جعفر صادق علیہ السلام کے سر ہے۔
امام صادقؑ نے محسوس کیا کہ مذہب شیعہ کے لیے ایک معنوی اساس کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ ادوار میں کسی کے آنے اور کسی کے جانے سے اس مذہب پر کوئی منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔ آپؑ تدریس کے آغاز سے ہی اپنا لائحۂ عمل کو جانتے تھے۔ آپؑ اچھی طرح جانتے تھے کہ شیعہ مذہب کو باقی رکھنے کے لیے بس یہی ایک طریقہ ہے کہ اس کے لیے ایک ثقافت تشکیل پائے۔
یہ بات واضح کرتی ہے کہ یہ شخصیت نہ صرف علمی لحاظ سے فہم و فراست کی حامل تھی بلکہ آپؑ کو سیاسی تدبر حاصل تھا۔ اور آپؑ کو علم تھا کہ مذہب شیعہ کی تقویت کے لیے کسی ثقافت کی تشکیل طاقتور فوج تیار کرنے سے بہتر ہے۔ کیونکہ ایک طاقتور فوج ممکن ہے اپنے سے زیادہ طاقتور فوج کے ہاتھوں مغلوب ہو جائے لیکن ایک مضبوط، مستحکم اور وسیع ثقافت ہرگز تباہی کا شکار نہیں ہو سکتی۔ آپؑ نے یہ بھی اندازہ لگایا کہ اس ثقافت کو جلد از جلد وجود میں آجانا چاہیے تاکہ وہ ان تمام فرقوں پر فوقیت رکھے جو اسلام میں ظہور پذیر ہو رہے تھے اور ابھی ثقافت سے ان کا دور کا رشتہ بھی نہ تھا۔
آخر میں یہ کہنا چاہونگا کہ امام صادق علیہ السلام سے کسی چاہنے والے شخص نے پوچھا کہ متعدد علوم میں کون سا علم دوسروں پر ترجیح رکھتا ہے تو آپ نے جواب دیا کہ کُلی حیثیت سے تو کوئی علم دیگر علوم پر ترجیح نہیں رکھتا لیکن استعفادہ کے مواقع ایک دوسرے میں امتیاز پیدا کرتے ہیں۔
یہ لمحۂ فکریہ صرف علماء کرام، ذاکرین، مقررین، مبلغین، واعظین، متکلم، خطبا ٕ اور شعراء کرام کے لیے نہیں ہے بلکہ تمام مومنین و مومنات کو تدبر و تفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی عظمت و جلالت کا اعتراف کرنے کہ باوجود، اُن کے اُسوۂ حسنہ کو اپنانے، اور اُن کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش نہیں کرتے، اُن کے لیے یہ بات خصوصی و لازمی طور پر لمحۂ فکریہ ہے کہ عظمت و جلالت کا زبانی اعتراف تو آپؑ کے دشمنوں بلکہ یوں لکھا جائے کہ آپؑ کے قاتلوں نے بھی کیا ہے۔ لیکن کیا کسی عظیم المرتبت امام کی بزرگی کا اعتراف ہی چاہنے والوں کی نجات کے لیے کافی ہوسکتا ہے۔ کیا خالق کائنات نے ہادیانٍ برحق کو ان کمالات سے صرف اسی لیے نوازا تھا کہ اُن کی محبت کا دعویٰ کرنے والے، انسان کمالات کا صرف اعتراف کرلیں؟
حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آپؑ کو امام برحق اور ہادی خلق ماننے کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ کی ہدایات پر مکمل عمل کیا جائے۔ آپؑ کے اُسوۂ حسنہ کو اپنی عملی زندگی میں اپنایا جائے اور واجبات و محرمات کے سلسلے میں آپؑ کی واضح تعلیمات کو پیش نظر رکھا جانا فریضہ اور باعث نجات ہیں۔ کیا یہ حدیث ذہن نشین نہیں ہے کہ آپؑ 'کشتیٔ نجات' اور 'چراغ ہدایت' ہیں۔